*دعوتِ فکر و عمل*
جب آپ فریش چکن خریدنے جاتے ہیں تو آپ دیکھتے ہوں گے کہ دکان مالک پنجرے میں اپنا ہاتھ ڈالتا ہے تاکہ جس مرغی کو ذبح کرنا ہے اسے پکڑ سکے۔ بہرحال یہ اہم نہیں بلکہ جب وہ پنجرے میں اپنا ہاتھ ڈالتا ہے تو دوسری مرغیاں مارے ڈر کے اندر بھاگ جاتی ہیں۔ اس کے باوجود دوکاندار کو جو مرغی ذبح کرنی ہوتی ہے اسے پکڑ لیتا ہے۔
کچھ ہی دیر بعد باقی مرغیاں اپنے پرانے معمول پر لوٹ آتی ہیں اور کھانے پینے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ اور یہ صورتحال دن بھر میں کئی بار لگاتار پیش آتی رہتی ہے۔ یعنی مرغیاں دو حال سے خالی نہیں ہوتیں:
پہلی حالت: ذبح ہونے کے ڈر سے بھاگنا۔
دوسری حالت: کچھ دیر بعد ڈر کو بھول جانا اور کھانے پینے میں مصروف ہو جانا۔
لیکن ان سب کے باوجود دن کے ختم ہونے یعنی شام تک پورا پنجرہ مرغیوں سے خالی ہو جاتا ہے۔
یہاں عبرت و نصیحت کی بات یہ ہے کہ موت کے فرشتے کے ساتھ ہمارا بھی کچھ اسی طرح کا حال ہے۔ ہم یکے بعد دیگرے لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ تجہیز و تکفین و تدفین کے وقت ہم صرف عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ اور کچھ دیر کے بعد سب کچھ بھلا کر اپنی اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کچھ ہوا ہی نہیں۔ حالانکہ ایک دن سب کو اسی انجام سے دوچار ہونا ہے۔ بس کچھ وقت کی بات ہے۔
اللہ تعالی نے سچ فرمایا: (كل من عليها فان. ويبقى وجه ربك ذو الجلال والإكرام)
عربی سے منقول